-:نشان حیدر
نشانِ حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے۔ اس اعزاز کو شجاعت و بہادری کے پیکر، حیدر کرار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ نشان صرف ان فوجی جوانوں کو نصیب ہوتا ہے جنہوں نے وطن کیلئے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ ان میں میجر طفیل نے سب سے بڑی عمر یعنی 44 سال میں شہادت پانے کے بعد نشان حیدر حاصل کیا، نشان حیدر پانے والے باقی شہداء کی عمریں 40 سال سے بھی کم تھیں۔ سب سے کم عمر نشان حیدر حاصل کرنے والے راشد منہاس تھے جنہوں نے 20 سال 6 ماہ کی عمر میں شہادت پر نشان حیدر اپنے نام کیا۔اس اعلیٰ ترین فوجی اعزاز کے بارے میں ایک دلچسپ حقیقت جو بہت کم لوگ جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ نشان حیدر جنگوں کے دوران دشمن افواج سے چھینے گئے اسلحہ کی دھات سے بنایا جاتا ہے۔ اب تک جن بہادر سپوتوں کے حصے میں نشان حیدر آیا ہے ان کے کارنامے مختصراًدرج ذیل ہیں۔
راجہ محمد سرور شہید
راجہ محمد سرور 10 نومبر 1910 ء کو موضع سنگوری تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ آپ 1929 ء میں بلوچ رجمنٹ میں ایک سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے اور ترقی پاتے ہوئے یکم فروری 1947 ء میں رائل انڈین آرمی میں کیپٹن کے عہدے تک پہنچے۔ تقسیم ہندکے وقت پاک فوج کو فوقیت دی اور پاکستان آگئے۔
جولائی 1948 ء میں دشمن کے خلاف محاذِ جنگ پر پہنچے تو اوڑی کے مقام پر ایک پہاڑی دشمن کے قبضے میں تھی۔ بلندی پر ہونے کے سبب دشمن پاک فوج کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکتا تھا لہٰذا اس چوٹی پر قبضہ کرنا کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔ اس جان لیوا کام کا بیڑہ محمد سرور شہید نے اٹھایا اور 27 جولائی 1948ء کی رات کو اپنے جوانوں کے ساتھ ٹارگٹ کی طرف بڑھے۔ جہر سمت سے گولے اور گولیاں برسائی جا رہی تھیں اور محمد سرور شہید کی قیادت میں مٹھی بھر سپاہی سر پر کفن باندھے دشمن مورچوں کی طرف بڑھے۔ اس دوران کئی جوانوں نے موت کو گلے لگایا۔ ایسے میں ایک گولی محمد سرور کا دایاں بازو چیرتے ہوئے نکل گئی۔ وہ گولیوں کی بوچھاڑ میں آگے بڑھتے رہے زخموں سے خون جاری تھا۔آخر وہ اس مورچے تک جا پہنچے جہاں سے گولیاں برسائی جا رہی تھیں۔ وہ باڑ کاٹنے لگے ۔ آخری تار کٹنے کو تھی کہ دشمن کی فائرنگ نے محمد سرور شہید کا سینہ چھلنی کر دیا۔
میجر طفیل محمد شہید
میجر طفیل محمد 1914 ء میں ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1943 ء میں پنجاب رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی اور 1958 ء میں ترقی پاکر کمپنی کمانڈر کی حیثیت سے ایسٹ پاکستان رائفلزمیں تعینات ہوئے، اس وقت مشرقی پاکستان میں حالات قابو سے باہر ہورہے تھے۔ میجر طفیل کو لکشمی پور میں مورچہ بند بھارتی دستوں کے خلاف کارروائی کا مشن سونپا گیا۔ آپ نے 7 اگست 1958ء کو جرأت و بہادری کی تاریخ رقم کرتے ہوئے علاقے سے بھارتی مورچوں کا صفایا کر دیا، اپنی شجاعت سے دشمن دستوں میں اس قدر خوف طاری کردیا کہ بھارتی فوجی لاشیں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ اس دوبدو جنگ میں میجر طفیل محمد بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے، انہیں پاکستان کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر عطا کیا گیا۔
میجر راجہ عزیز بھٹی شہید
جب دشمن لاہور پر حملہ آور ہوا تو اس وقت میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر کے علاقے برکی میں کمپنی کمانڈر تعینات تھے۔ میجر عزیز کئی دن تک بھارتی ٹینکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے، 12 ستمبر 1965 ء کو ٹینک کا گولہ چھاتی پر کھایا اور جامِ شہادت نوش کیا۔
میجر محمد اکرم شہید
میجر محمد اکرم 4اپریل 1938ء کو ڈنگہ ضلع گجرات میں پیدا ہوئے 1963ء میں فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں بطور کمیشن آفیسر چارج سنبھالا۔ 1965 ء کی جنگ شروع ہوئی تو میجر اکرم اس وقت بطور کپتان شہر لاہور کی حفاظت پر مامور تھے۔ انہوں نے چند سپاہیوں کے ساتھ بھارتی فوج کے خلاف کامیاب کاروائیاں کیں اور دشمن کو پیش قدمی سے روکے رکھا، آپ کو 1969 ء میں کیپٹن سے میجر کے عہدے پر ترقی دی گئی۔1971ء کی پاک ،بھارت جنگ میں مشرقی پاکستان کے علاقے ہلی کے محاذ پر میجر محمد اکرم نے اپنی فرنٹیئر فورس کی کمانڈ میں بھارتی فوج کی پیش قدمی روک کر دشمن کے اوسان خطا کر دئیے۔ ہلی کے محاذ پر میجر اکرم کی جرأت و بہادری نے ایسا رنگ جمایا کہ دشمن بھی داد دئیے بغیر نہ رہ سکا ، دشمن کو بھاری جانی نقصان پہنچانے پر میجر اکرم کو ’’ ہیرو آف ہلی ‘‘ کے نام سے شہرت ملی۔ آپ نے 5دسمبر 1971 ء کو جام شہادت نوش کیا۔ دشمن کیخلاف اس شاندار مزاحمت کے اعتراف میں انہیں اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر عطا کیا گیا۔
راشد منہاس شہید
پاک فضائیہ کے جانباز پائلٹ راشد منہاس 17 فروری 1951 ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، مارچ 1971 ء میں راشد منہاس نے پاک فضائیہ میں بطور کمیشن جی ڈی پائلٹ شمولیت اختیار کی اور اگست 1971ء کو پائلٹ آفیسر کے عہدے پر ترقی پائی۔ 20 اگست 1971ء کو وہ اپنی پہلی سولو فلائٹ پر روانہ ہو رہے تھے کہ اچانک ان کے انسٹرکٹر مطیع الرحمان طیارے کو رن وے پر روک کر سوار ہوگئے اور جہاز کا رخ دشمن ملک بھارت کی جانب موڑ دیا۔ وہ بھارتی فوج کی جانب سے پلانٹڈ جاسوس تھا اور طیارے کو دشمن ملک میں اتارنا چاہتا تھا۔ راشد منہاس نے بر وقت حاضر دماغی اور بہادری سے کام لیتے ہوئے جہاز کا رخ زمین کی جانب موڑ دیا۔ جہاز تباہ ہونے سے راشد منہاس نے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ آپ کو اس دادِ شجاعت کے طور پر نشان حیدرسے نوازا گیا۔
میجر شبیر شریف شہید
میجر شبیر شہید میجر عزیز بھٹی شہید کے بھانجے تھے۔ آپ 28 اپریل 1943ء کو گجرات کے علاقہ کنجاہ میں پیدا ہوئے۔ آپ اپریل 1964ء میں فوج میں شامل ہوئے۔ 1971 ء کی جنگ کے موقع پر آپ بطور کمپنی کمانڈر فرنٹیر فورس رجمنٹ سلیمانکی کے محاذ پر تعینات تھے۔ اس دوران انہوں نے دشمن فوجیوں اور ٹینکوں کو بھاری نقصان پہنچایا اور6 دسمبر 1971ء کو ملک و قوم کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، شہادت کے وقت آپ کی عمر محض 28 برس تھی ان کی ہمت اور بہادری کے اعتراف میں حکومت نے انہیں سب سے اعلیٰ فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا۔
جوان سوار محمد حسین شہید
جوان سوار محمد حسین شہید 18 جون 1948 ء کے دن ڈھوک پیر بخش میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی اور میٹرک کا امتحان دیوی ہائی سکول سے دیا لیکن ایک مضمون میں فیل ہوگئے۔ اسی دوران 1965 ء کی جنگ چھڑ گئی اور آپ نے عام بھرتی کے اعلان پر لبیک کہتے ہوئے پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔1971 ء کی جنگ میں وہ اپنی یونٹ کے ساتھ ہرڑ کے مقام پر تعینات تھے، فوج میں اگرچہ وہ ڈرائیور تھے لیکن انہوں نے یونٹ کے ہر کام کو خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ سوار محمد حسین شہید 5 دسمبر 1971ء کو ظفر وال (شکر گڑھ) کے محاذ پر دشمن کی گولہ باری کی پرواہ کیے بغیر خندق میں موجود اپنے ساتھیوں کو گولہ بارود پہنچاتے رہے اور ٹینک شکن توپوں کے پاس جا کر دشمن کے ٹھکانوں کی نشاندہی کرتے ۔ آپ کی اس جانباز کارروائی سے دشمن کے جدید ترین ٹینک بڑی تعداد میں تباہ ہوئے۔ 10 دسمبر 1971ء کو سوار محمد حسین دشمن کی مشین گن کی گولیوں کا نشانہ بن گئے اور جام شہادت نوش کیا۔ سوار محمد حسین شہید کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاک فوج کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر حاصل کرنے والے پہلے جوان تھے۔
لانس نائیک محمد محفوظ شہید
لانس نائیک محمد محفوظ شہید ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں پنڈ ملکاں (محفوظ آباد) میں 25 اکتوبر 1944 ء کو پیدا ہوئے۔ آپ نے 25 اکتوبر 1962 ء کو پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ 1971 ء کی جنگ کے دوران محمد محفوظ واہگہ اٹاری سیکٹر میں تعینات تھے۔16 دسمبر کی رات جب جنگ بندی کا اعلان ہوا تو مل کنجری کا کچھ علاقہ پاکستان کے قبضے میں آچکا تھا۔ جنگ بندی کے اعلان کے بعد پاکستانی افواج کو کسی حملے کی امید نہیں تھی۔ مقبوضہ علاقہ چھڑانے کیلئے دشمن نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 17 اور 18 دسمبر کی درمیانی شب بھر پور حملہ کردیا۔ پاکستانی فوج میں لانس نائیک محمد محفوظ کی پلاٹون نمبر 3ہراول دستے کے طور پر سب سے آگے تھی چنانچہ اسے خود کار ہتھیاروں کا سامنا کرنا پڑا۔
لانس نائیک محمد محفوظ بڑی بے جگری سے لڑ رہے تھے، ایک مرحلے پر جب ان کی مشین گن تباہ ہوگئی تو انہوں نے لپک کر ایک شہید ساتھی کی مشین گن اٹھائی اور دشمن پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دئیے۔ اسی دوران ایک گولی ان کی مشین گن کو لگی اور مشین گن ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ نہتے شاہین نے ایک بھارتی سپاہی کو گلے سے دبوچ لیا، قریب تھا کہ آپ اسے گلہ گھونٹ کر جہنم واصل کرتے کہ ایک دوسرے بھارتی سپاہی نے سنگین مار کر آپ کو شہید کردیا۔ لانس نائیک محمد محفوظ کو ان کی بہادری کے اعتراف میں ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر عطا کیا گیا۔
کیپٹن کرنل شیر خان شہید
معرکہ کارگل کے ہیرو کرنل شیر خان شہید یکم جنوری 1970 ء کو صوابی کے گاؤں نواں کلی میں پیدا ہوئے، آپ نے 1994 ء میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ کرنل شیر خان شہید نے معرکۂ کارگل کے دوران 17 ہزار کلو میٹر کی بلندی پرقائم گلتری کے مقام پر 5 حفاظتی چوکیاں قائم کیں۔ ان چوکیوں کی مدد سے دشمن کی ہر چال پر نظر رکھنا آسان تھا، بھارتی فوج نے کئی بار ان چوکیوں پر قبضے کی نیت سے حملے کیے لیکن ہر بار کرنل شیر خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشمن کا ہر حملہ ناکام بنایا۔ پریشان ہو کر دشمن نے بھر پور طاقت سے حملہ کرنے کی ٹھانی اور دو بٹالین فوج کے ساتھ چوکیوں پر حملہ کیا۔ کرنل شیر خان کے ساتھ صرف 21 مگر شیر دل سپاہی تھے، سو ہتھیار ڈالنے کے بجائے جواں مردی سے دشمن کا مقابلہ کیا اور کئی بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کیا۔ کرنل شیر خان نے نہ صرف دشمن کو پیچھے بھاگنے پر مجبور کیا بلکہ ان کے بیس کیمپ تک جا پہنچے اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ آپ کی شجاعت کا اعتراف بھارتی فوج نے بھی کیا۔ حکومت پاکستان نے بہادری کے اعتراف میں آپ کو اعلیٰ فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا۔
حوالدار لالک جان شہید
ٹائیگر ہل کے مقام پر جو چوکی کیپٹن کرنل شیر خان اپنی شہادت سے قبل جیت چکے تھے، اس پر قبضہ رکھنے کیلئے مسلسل جدوجہد ضروری تھی۔ حوالدار لالک جان انفنٹری کے نڈر اور بہادر سپاہی تھے۔ دشمن کسی بھی قیمت پر یہ چوکی حاصل کرنا چاہتا تھا لہٰذا دو بار لالک جان کی چوکی پر حملہ کیا گیا مگر اسے اس بہادر ہیرو کے ہاتھوں منہ کی کھانی پڑی اور مسلسل2 راتوں کے حملوں میں ناکام ہو کر دشمن اپنی لاشوں کے انبار چھوڑ کر پسپا ہوتا رہا۔ تاہم دشمن نے حوالدار لالک جان کی چوکی پر توپ خانے نے شدید فائر کیے۔ جس میں حوالدار لالک جان شدید زخمی ہوئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔ آپ کی جرأت و بہادری کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے نشان حیدر سے نوازا۔
نائیک سیف اللہ جنجوعہ (ہلال کشمیر)
سیف اللہ جنجوعہ 1922ء کو نکیلا میں پیدا ہوئے، 18 سال کی عمر میں 1940 ء میں تقسیم ہندسے قبل فوج میں شمولیت حاصل کی۔1948 ء میں کشمیر رجمنٹ کی جانب سے لڑتے ہوئے مشین گن سے ہندوستان کا طیارہ مار گرایا جبکہ توپ کا گولہ انکی پوسٹ پر لگا۔ آپ کو’’ ہلالِ کشمیر ‘‘سے نوازا گیا جو کہ پاکستان کے نشان حیدر کے مساوی ہے۔شہادت کے وقت آپ کی عمر 26 سال 6 ماہ تھی۔